Posts

مرد؟

Image
خبر : کلاس کا اول رہنے والے بچے نے پنکھے سے لٹک کر اپنی جان لے لی . خبر : ملک کی معروف جامعہ کا طلب علم ، نشے کی اوور ڈوز سق جان کی بازی ہار گیا . خبر : سنگدل باپ نے 2 بچوں اور بیوی کو گولی مارنے کا بعد خود کشی کر لی . خبر ، خبر ، خبر . ری ایکشن : بزدل تھا ، سنگدل تھا ، لڑکی کا پیچھے جان لے لی ، نشے سے مر گیا ، پاگل تھا ، بیوقوف تھا ، مرد ہی نہیں تھا…  مرد ہی نہیں تھا . کیا ہے مرد ؟ کون ہے یہ ؟ کیوں ہے یہ ؟ میں کہتا ہوں کہ مرد اِس دنیا کا سب سے مظلوم جانور ہے . کیسے ؟ میں بتاتا ہوں ، مرد سے اس کی زندگی ، اس کی خوشیاں اس کا اپنا آپ، ایسے چھینا گیا کہ اس کو احساس تک نہیں ہوا . ذرا سی برتری کا لولی پوپ پکڑا کر ، اس کے کندھوں پہ اتنی ذمہداریان ڈال دی گئی کہ جِسم تو اکڑا رہ گیا ، مگر وہ اندر سے کھوکھلا ہوتا چلا گیا . اسی سے پِھر ہوتا ہے ، تھوڑی تیز ہوا کسی اور طرف سے آ جائے ، تو تڑخ ، بیچ سا ٹوٹ جاتا ہے. جھکتا نہیں ، بولتا نہیں ، کیوں کہ مرد کو تو درد نہیں ہوتا نا صاحب ، مرد تو کبھی رو نہیں سکتا . یا وہ مخلوق ہے ، جس پر ہمیشہ یہ الزام لگایا جاتا ہے کے یہ سب فیصلے کرتا ہے . کہاں صاحب ، کبھی

میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 4)

Image
یہ بات ہے کچھ پُرانے وقت کی جب میں لاہور میں برسر روزگار تھا اور اس لگی لگائی روٹی کو لات مار کے پی ایچ ڈی کی دلدل میں قدم رکھنے کے لیے پرعزم . اس عرصے میں میری ملاقات قادری صاحب سے ہوئی . یہ قادری صاحب تھے تو وہ ٹَن ٹَن ٹنا ٹَن والے طبقے سے مگر تھے بہت پیارے انسان . کراچی کی نم آب و ہوا سے اٹھ کر لاہور کی دھرتی پہ ایک بہت بنیادی تنخواہ پہ کام کرنے آۓ ہوئے تھے . قادری صاحب کا ذکر یہاں کیوں ؟ اِس لیے كہ آج بیٹھا میں یوں ہی سوچ رہا تھا کے قدرت آپکو کہاں سے کہاں کس مقصد کا لیے لے جاتی ہے اور آپکو اس کا اِدراک تک نہیں ہوتا . قادری صاحب بڑے سیدھے انسان تھے . اچانک فون کریں گے اور بولیں گے ، یار باہر چلیں ، تفریح کا موڈ ہو رہا ہے ، اور ان کی تفریح ایک پُرانے سے ڈھابے پہ چائے پینا تھی ، اور ہماری ان پہ اپنی جگت بازی کی چھریاں تیز کرنا . اِس کار خیر میں کبھی کبھار ہمارے جٹ صاحب بھی اپنی مہران کے ساتھ شامل ہو جاتے . رمضان کی ایک شام کو جب میں اور قادری صاحب ایسے ہی تفریح کا بعد باہر گھوم رہے تھے تو وہ فرمانے لگے کے ایک نوکری ہے ، اس ملک کی جہاں مہتاب غروب نہیں ہوتا . ہمارا جگرافیہ ذرا کمزور ہے

اپنی ذات کا نام ایک خط .

سلام ، کیسے ہو ؟ جانتا ہوں میں کے تم بہت تھک چکے ہو . جوانی میں قدم رکھتے رکھتے ہڈیاں بڑھاپے کی طرح تڑکھنے لگی ہیں . مڑ کے دیکھتے ہو تو لگتا ہیں صدیاں گزار آے ہو . ہاں جوان ، بہت کچھ کر لیا تم نے. مگر ان احسانوں کا ، ان اپنوں کی عنایت کا بوجھ تم پہ اب اتنا بڑھ چکا ہے کہ تم سے سانس بھی لینا مشکل ہو رہا ہے . جانتا ہوں کہ تم سو نہیں سکتے، یہ بھی جانتا ہوں کا مرد ہو ، رو بھی نہیں سکتے . جانتا ہوں کہ سب سمجھانے والے اکھٹے ہو گئے ہیں ، سمجھنے والا کوئی نہیں . مگر یہی تو زندگی ہہ نا پیارے . یہ تو ایسے ہی چلنا ہے . جتنا جینا ہے ، اپنے لیے کم ، اور اپنوں کے لیے زیادہ . ہاں ہاں پتہ ہے مجھے کے اٹ واز ناٹ یور چوائس ، بھائی میرے چوائس کسی کی نہیں ہوتی . مگر سب کو کرنا پڑتا ہے . اپنے ارد گرد دیکھو ، یہ سب ہنستے مسکراتے چہرے دیکھو ، کتنے خوش باش نظر آتے ہیں نا ؟ اب ان کی آنکھوں میں دیکھو ، ان کی روح میں جھانکو ، سب خزاں رسیدہ جوان چہرے ہیں . سب ایک مسلسل جنگ میں ہیں . تمھاری طرح . کسی کو روٹی کی چاہ ہے ، تو کوئی محبت کے لیے روتا ہے . دیکھو صاحب ، یہ گلے چھوڑ دو کے تم تنہا ہو ، اِس زندگی کی جنگ میں

jad da puttar bahar gaya ey

Image
jad da puttar bahar gaya ey khali ho ghar bahir gaya aey jhotey hasey hasdi paye aey maan logha noo dasdi paye aey dolar pond kamanda aey sohna othey daftar janda aey sohna ochey kothey paa bethi aan sohna ghar bana bethi aan kuley shad key kothey pae aey kitey sarey oos kamaye aey ghar parado wey kalaye aey unjh wi nokar chakar kaey aey peyu daa bhaar otha reha aey sohna aena kujh kama reha aey sohna jad wey shehar main jandi aan lakhan dey wich landey aan hun kahnda pardes ney hadiye ohwe apna dais ni hadriye ohdey call wey ande aey daily gal ho jandey aey jad we koi majborey howey ondha ana zarorey howey do ghantey chey aa janda aey sarey kam nibtta janda aey aeney wich do hunjo dulh pey aenjh nikley key bolan deh pey phair maan sach sach bulan lagh paye dil dey zakham pharolan lag paye bahron bahir he jindey aan hadiye andron tey oh maar gaya aey jad da puttar bahar gaya ey khaley ho ghar bahir g

میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 3)

Image
گزشتہ سطور میں ملک صاحب کا سرسری سا تذکرہ ہو چکا . ہمارے ملک صاحب بھی اپنی ذات میں ایک کہانی ہیں . ملک خداداد میں درس و تدریس کا شعبہ سے وابستہ ، اور پی ایچ ڈی کرنے فقط اِس لیے تشریف لاۓ کہ پرستش صنم کا کوئی اور چارا نہ رہا تھا . عمر میں ہَم ان سے جوان ، اور دِل کےوہ ہَم سے بہت زیادہ جوان . ملک صاحب کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے دِل میں انگریز سے غلامی کا بدلہ لینے کی آگ بہ درجہ اتم روشن ہے اسی لیے وہ آپ کو دیسیون کی کسی محفل میں نظر نہیں آئیں گے۔ مملکت خداداد کی کسی مہ جبیں سے محو گفتگو بھی کم ہی اُنہیں دیکھا گیا . اپنی غلامی کے بدلے کی آگ میں اِس قراد مگن کہ عرصہ 5۔2 سال میں بھی گھر نہیں گۓ ، اور ابھی تک شادی کا لڈو بھی نہیں چکھا، اور دِل و جان سے اہل فرنگ کو زیر کرنے کی کوشش میں ہیں کہ مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاھی. ہمارے ان ملک صیب کے بارے میں طرح طرح کی کہانیاں زُبان زد عام ہیں اور خصوصاً صنف نازک میں وہ اُکھڑ مزاج مشہور ہیں۔ ملک صاحب نے کبھی اِس کی پرواہ بھی نہیں کی. فطراتا ملک صاحب ایک بہت بیبے انسان ، ایک سیلف میڈ انسان کی تمام خوبیاں اور خامیاں بہ درجہ آت

میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 2)

Image
صاحبو ، پی ایچ ڈی اور انجینیئرنگ میں میری ناقص راۓ کے مطابق صرف شدت کا فرق ہے . یہ ملحوظ خاطر رہے کے یہ شدت کا فرق کئ گنا زیادہ ہے . جب آپ دار العلمی میں داخل ہوتے ہیں ، تو دنیا فتح کرنے کا عظم لیے ہوتے ہیں ۔ کئی حضرات تو اپنی نوبیل پرائز کی تقریر بھی پہلے ہفتے میں لکھ بیٹھتے ہیں . پِھر آہستہ آہستہ پسند کی شادی کی مانند اِس میدان کی حقیقت کھلنے لگتی ہے تو بس یہی خواہش رہ جاتی ہے کہ "اس عذاب سے تو اب نکال مجھے" . گذشتہ دنوں ایک شخسیت اپنی جوانی کا خون کر کے اسی راہ پہ آ نکلی جس پہ یہ فدوی بھی با وجہ قسمت اور ہٹدھرمی ، گامزن ہہ . دِل چاہا کہ موصوف سے کچھ ہمدردی کا اظہار کیا جائے اور کچھ دکھ بانٹے جائیں تو معلوم ہوا کے یہ موصوف اقبال اور بھگت سنگھ کے ملاپ سے وجود میں آنے والی کوئی شے ہیں . فقط 22 سال کی عمر میں خودی کی تلاش میں پی ایچ ڈی کو اپنی دلہن بنانے والے اِس عظیم انسان کا بارے میں اور جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا . یہ بھی معلوم پڑا کا یہ حضرت اپنی نوجوانی کا چار سال ، انگلستان میں ہی بیتا چکے ہیں . انہی دنوں ایک شب ملک صاحب کا ہاں چائے کا دوران ہمارے برادار محترم مرزا ص

میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 1)

 زمانہ طالب علمی کا آغاز میں تو ہمارے لیے لفظ "ڈاکٹر" تو بس ایک ایسی شخصیت تھی جو اپنے تنہائی اور کتابوں میں گزارے ایام کا بدلہ نوح انسانی سے لینے کا لیے فرشتہ صفت سفید رنگ پہن کا آتا تھا ، اور نت نئی بیماریوں کے نام بتا کر انجیکشن اور کڑوی گولیوں کا تحفہ دے جاتا تھا . آپ کا معلوم نہیں ، فدوی کے ذہن میں جماعت پنجم تک "ڈاکٹر" لفظ سن کر ایک سفید بھوت آتا تھا ، جس کا ایک ہاتھ میں بلیڈ اور دوسرے میں انجیکشن ہو ، اور اس کے بھوت پنے کا ایک ہی مقصد ہو کہ آپ کی تشریف پہ آپ کے خاندان ، اور تمام مرزون کا سامنے، وہ انجیکشن لگا کے آپ کی چیخ و پُکار کا مزہ لے۔ پِھر جوں جوں اِس تعلیم کا مرض ، دوا کا ساتھ ساتھ بڑھتا گیا تو معلوم ہوا کا ایک اور مخلوق بھی اسی نآم سے دنیا میں پائی جاتی ہے ، جو بہت کم کم دکھتی ہے ، مگر اکثر لوگ گواہی دیتے ہیں کے انہوں نا اسے دیکھا ہے . معلوم نہیں وہ چھلاوہ ہے.، روح ہے یا کوئی بھوت ، استاد لوگ اسے "پی ایچ ڈی ڈاکٹر" کا نام دیتے ہیں . فطری تجسس کا ہاتھوں مجبور ہو کے تلاش شروع کی کہ یہ پی ایچ ڈی کیا آفَت ہے ، یہ کون سے ڈاکٹر ہیں جو نہ سفید کوٹ