میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 4)

یہ بات ہے کچھ پُرانے وقت کی جب میں لاہور میں برسر روزگار تھا اور اس لگی لگائی روٹی کو لات مار کے پی ایچ ڈی کی دلدل میں قدم رکھنے کے لیے پرعزم . اس عرصے میں میری ملاقات قادری صاحب سے ہوئی . یہ قادری صاحب تھے تو وہ ٹَن ٹَن ٹنا ٹَن والے طبقے سے مگر تھے بہت پیارے انسان . کراچی کی نم آب و ہوا سے اٹھ کر لاہور کی دھرتی پہ ایک بہت بنیادی تنخواہ پہ کام کرنے آۓ ہوئے تھے . قادری صاحب کا ذکر یہاں کیوں ؟ اِس لیے كہ آج بیٹھا میں یوں ہی سوچ رہا تھا کے قدرت آپکو کہاں سے کہاں کس مقصد کا لیے لے جاتی ہے اور آپکو اس کا اِدراک تک نہیں ہوتا . قادری صاحب بڑے سیدھے انسان تھے . اچانک فون کریں گے اور بولیں گے ، یار باہر چلیں ، تفریح کا موڈ ہو رہا ہے ، اور ان کی تفریح ایک پُرانے سے ڈھابے پہ چائے پینا تھی ، اور ہماری ان پہ اپنی جگت بازی کی چھریاں تیز کرنا . اِس کار خیر میں کبھی کبھار ہمارے جٹ صاحب بھی اپنی مہران کے ساتھ شامل ہو جاتے . رمضان کی ایک شام کو جب میں اور قادری صاحب ایسے ہی تفریح کا بعد باہر گھوم رہے تھے تو وہ فرمانے لگے کے ایک نوکری ہے ، اس ملک کی جہاں مہتاب غروب نہیں ہوتا . ہمارا جگرافیہ ذرا کمزور ہے ...