رقیب سے




آ کہ وابستہ ہیں اُس حُسن کی یادیں تجھ سے
جِس نے اِس دِل کو پری خانہ بنا رکھا تھا
جِس کی اُلفت میں بھُلا رکّھی تھی دُنیا ہم نے
دہر کو دہر کا افسانہ بنا رکھا تھا

آشنا ہیں تیرے قدموں سے وہ راہیں جِن پر
اُس کی مدہوش جوانی نے عنائت کی تھی
کارواں گُذرے ہیں جِن سے اُسی رعنائی کے
جِس کی اِن آںکھوں نے بے سوُد عِبادت کی ہے

تُجھ سے کھیلی ہیں وہ محبوُب ہوائیں جِن میں
اُس کے ملبوس کی افسردہ مہک باقی ہے
تجھ پہ بھی برسا ہے اُس بام سے مہتاب کا نور
جِس میں بیتی ہوئی راتوں کی کسک باقی ہے

توُ نے دیکھی ہے وہ پیشانی، وہ رخسار وہ ہونٹ
زندگی جِن کے تصوّر میں لٹا دی ہم نے
تجھ پہ اُٹھی ہیں وہ کھوئی ہوئی ساحر آ نکھیں
تجھ کو معلوم ہے کیوں عمر گنوا دی ہم نے

ہم پہ مشترکہ ہیں احسان غمِ اُلفت کے
اتنے احسان کے گنواوٰں تو گنوا نہ سکوں
ہم نے اِ س عشق میں کیا کھویا ہے کیا سیکھا ہے
جزُ تیرے اور کو سمجھاوں تو سمجھا نہ سکوں

عاجزی سیکھی، غریبوں کی حمایت سیکھی
یاس و حرمان کے دکھ درد کے معنی سیکھے
زیردستوں کے مصائب کو سمجھنا سیکھا
سرد آہوں کے، رُخِ زرد کےمعنی سیکھے

جب کہیں بیٹھ کے روتے ہیں وہ بے کس جِن کے
اشک آںکھوں میں بِلکتے ہوئے سو جاتے ہیں
ناتوانوں کے نوالوں پہ جھپٹتے ہیں عُقاب
بازو تولے ہوئے منڈلاتے ہوئے آتے ہیں

جب کبھی بِکتا ہے بازار میں مزدور کا گوشت
شاہراہوں پہ غریبوں کا لہو بہتا ہے
آگ سی سینے میں رہ رہ کے اُبلتی ہے نہ پوچھ
اپنے دِل پر مجھے قابو ہی نہیں رہتا ہے

Comments

Popular posts from this blog

Raigani by Sohaib Mugheera Siddiqui

میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 3)

Air travel for the First Time