میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 1)

 زمانہ طالب علمی کا آغاز میں تو ہمارے لیے لفظ "ڈاکٹر" تو بس ایک ایسی شخصیت تھی جو اپنے تنہائی اور کتابوں میں گزارے ایام کا بدلہ نوح انسانی سے لینے کا لیے فرشتہ صفت سفید رنگ پہن کا آتا تھا ، اور نت نئی بیماریوں کے نام بتا کر انجیکشن اور کڑوی گولیوں کا تحفہ دے جاتا تھا . آپ کا معلوم نہیں ، فدوی کے ذہن میں جماعت پنجم تک "ڈاکٹر" لفظ سن کر ایک سفید بھوت آتا تھا ، جس کا ایک ہاتھ میں بلیڈ اور دوسرے میں انجیکشن ہو ، اور اس کے بھوت پنے کا ایک ہی مقصد ہو کہ آپ کی تشریف پہ آپ کے خاندان ، اور تمام مرزون کا سامنے، وہ انجیکشن لگا کے آپ کی چیخ و پُکار کا مزہ لے۔
پِھر جوں جوں اِس تعلیم کا مرض ، دوا کا ساتھ ساتھ بڑھتا گیا تو معلوم ہوا کا ایک اور مخلوق بھی اسی نآم سے دنیا میں پائی جاتی ہے ، جو بہت کم کم دکھتی ہے ، مگر اکثر لوگ گواہی دیتے ہیں کے انہوں نا اسے دیکھا ہے . معلوم نہیں وہ چھلاوہ ہے.، روح ہے یا کوئی بھوت ، استاد لوگ اسے "پی ایچ ڈی ڈاکٹر" کا نام دیتے ہیں .
فطری تجسس کا ہاتھوں مجبور ہو کے تلاش شروع کی کہ یہ پی ایچ ڈی کیا آفَت ہے ، یہ کون سے ڈاکٹر ہیں جو نہ سفید کوٹ پھنتے ہیں ، نہ گلے میں کالا پھندا ، اور نہ ہی آپس میں کسی خلائى زُبان میں گفتگو کرتے ہیں . معلوم پڑا کہ یہ تو کوئی عظیم لوگ ہیں ، کسی ایک مضمون کے مغز کے کسی ایک سیل پہ زندگی لگا کے اس میں مہارت حاصل کرتے ہیں . اسے ڈاکٹریٹ کہا جاتا ہے ، اور یہ کسی بھی مضمون کا ساتویں آسمان پہ قدم رکھنے جیسا ہے۔
اب اِس خاکسار کا سامنے 2 قسم کا ڈاکٹر حضرات تھے ، ایک سفید کوٹ میں چھپے ایم بی بی ایس بھوت ، اور ایک دنیا میں کم کم دکھنے والے ، کسی ایک چیز میں اَتھارِٹی رکھنے والے پی ایچ ڈی . اور فدوی کو بچپن سے ہی کتے کا علاوہ جس چیز کا ڈراونا خواب آیا وہ کسی ڈاکٹر کے ذبح خانے میں تشریف پہ لگنے والا انجیکشن تھا . اِس لیے ہمارے دِل میں پی ایچ ڈی والے ففتھ ڈایمینشن کا لوگوں کی عزت بڑھتی گئی اور اسی وقت دِل میں ان جیسا بننے کی خواہش نے جنم لیا . یقین مانیے اب بھی جب وہ وقت یاد آۓ تو فدوی کی آنکھوں سے اتنا پانی رواں ہوتا ہے کہ ایک اور دریاۓ سندھ رواں ہو جائے .
ان چھلاؤں پہ اور تحقیق کی تو معلوم ہوا کے یار لوگ اِس کی تشریح کچھ یوں کیا کرتے ہیں “پی ایچ ڈی = پھرا ہوا دماخ” . اور وجہ یہ بیان کرتے ہیں کے اتنی “ریسرچ” کا بعد انسانی جِسم کا ٹوپ فلور “ریڈایریکٹ” ہو جاتا ہے . ہم جو اِس شعبہ زندگی پہ دِل و جان سا فدا ہوئے بیٹھے تھے ، ہمیں یہ باتیں سمجھ نہیں آتی تھی کہ کیوں بھائی ، اس انسان نہ انسانیت کا لیے زندگی قربان کر دی اور تم اس کی عزت کیسے نہیں کرتے .
ڈاکٹریٹ کا شوق عشق کا پودا بن کے ہمارے دِل و دماغ میں پنپتا گیا . نام کا ساتھ “انجینیر” کا سابقہ لگنے تک یہ پودا درخت بن چکا تھا . یار لوگوں نہ بہت سمجھایا ، خاندان والوں نا بہت صلاح دی کے میاں کیوں اپنی جوانی برباد کرتے ہو ، ابھی تم نے دیکھا ہے کیا ہے . مگر یہ فدوی اپنے اِس ارادے پر ایسے قائم داءم تھا جیسے کہ بادشاہ وقت ہم ہی ہوں . میرے ایک عزیز اَز جان دوست تو میرے اِس ارادے سے اتنے پریشان تھے کے جب سب واسطے دے کے بھی کچھ نہ بن پڑا تو ایک شب ہمیں اپنی گاڑی میں لادا اور لاہور کا ایک ایسے کونے میں لے گئے جہاں ( با معذرت حفیظ جالندھری )

ادائیں فتنہ خیز تھی،
حسین جلوہ ریز تھی،
ہوائیں عطر بیز تھی ،
ناگاہ فتنہ گر ،
کوئی ادھر کوئی ادھر
اُبھارتے ہوں عیش پر .


یہ خاکسار شرافت کا دعوی تو نہیں کرتا ، مگر لاہور شہر میں ایک برس گزارنے کا بعد بھی ، اور آوارہ گرد کا طعنے پانے کا باوجود یہ حصہ ہماری آنکھ سے اوجھل تھا . ہمیں اِس سب سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھ کے حضرت نے دونوں کندھوں سا پکڑا اور فرمانے لگے.

ہوا بھی خوشگوار ہے ،گلوں پہ بھی نکھار ہے ،
ترنم ہزار ہے ،بہار پربہار ہے ،
کہاں چلا ہے ساقیا ،اِدھر تو لوٹ اِدھر تو آ
ارے یہ دیکھتا ہے کیا ،اٹھا سبو ، سبو اٹھا .
سبو اٹھا پیالا بھر ،پیالا بھر كے دے اِدھر ،
چمن کی سمیٹ کر نظر ،سمان تو دیکھ بے خبر
وہ کالی کالی بدلیان ،افق پہ ہو گئ عیاں ،
وہ اک ہجوم مہکشان ،ہے سو مہ کدہ رواں ،

مگر ہم جو اعلی ترین تعلیمی اعزاز کی آس لگائے بیٹھے تھے کے کب نام کا ساتھ ایک اور سابقہ کا اضافہ ہو ، ہم نے بھی اسی جون میں جواب دیا ،

عبادتوں کا ذكر ہے ، نجات کی بھی فکر ہے ،
جنون ہے ثواب کا ، خیال ہے عذاب کا .
مگر سنو تو شیخ جی ، عجیب شے ہیں آپ بھی ،
بھلا شباب و عاشقی ، الگ ہوئے بھی ہیں کبھی .

ایک اور بہت پیارے دوست ہمارے جٹ صاحب ، بہت پیارے انسان . انہوں نے تو یہ دھمکی تک لگا دی “تینو گولی مارسان” ، اور ہَم ڈاکٹریٹ کے عشق میں ڈوبے ہوئے بلااختیار یہ کہہ اٹھے کہ جٹ صاحب ، چناب کچے گھڑوں پہ ہی پار کرنا پڑتا ہے .

آخر اِس عشق کے آگے صاحبہ کا بھائیوں کا کردار ادا کرنے والے یو کے ایمبیسی والوں نے بھی ہاتھ جوڑ دیے اور ہمیں انگلستان کی کوئین میری یونیورسٹی میں داخلے کا پروانہ مل ہی گیا . اب سوچتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے بھی یہ کہتے ہوئے مہر لگائی ہو گی "مرنا ہی ہے تو تے جا مر" .

پِھر ہَم آخر کر انگلستان اعلی تعلیم کا حصول کے لیے آ پہنچے . خیر اعلی تعلیم کا ساتھ ساتھ فدوی کا عزم پیہم یہ بھی تھا کہ ڈگری کا ساتھ نگاہوں کو سکوں بھی میسر اۓ تو کیا برا ہے،

 سن رکھا تھا کہ

ارض کلیسا کا ہر ماہپارہ

سنا ہے اس کا بدن کی تراش ایسی ہے

کہ پھول اپنی قبائین کتر کے دیکھتے ہیں

سنا ہے چشم تصور سے دشت امکان میں

پلنگ زاویے اس کی کمر کے دیکھتے ہیں


خیر آۓ تو ہم سر پہ ڈاکٹریٹ کا تاج سجانے تھے ، مگر یہاں آ کے معلوم ہوا کہ


یہ عشق نہیں آساں

ایک سینیر نے بڑے پیار سے سمجھایا کہ صاحب ، آپ کی والدہ یہاں سے ہزاروں میل دور تشریف فرما ہیں ، تو پہلے آپ بڑے صاحب-زادے سے بَدل کر ایک لو میرج والی بہو کی طرح امور كھانا داری میں مہارت حاصل کریں . تو پِھر ہم نے ایک اچھی بیٹی کی طرح كھانا بنانے ، صفائی کرنے ، کپڑے دھونے اور حتی کہ سلائی میں بھی مہارت حاصل کرنا شروع کی.

یقین جانیے صاحب ، یہاں ہم نے ایسے ایسوں کو امور خانہ داری ایسی جان فشانی سے سر انجام دیتے دیکھا ہے کہ دیس میں کوئی بھی خاتون اپنی تَمام جائیداد دے کے اُنہیں گھر جمائ بنانا چاہیں . میرے ایک بھائیوں جیسے سینیر خود بتایا کرتے ہَیں کے پاکستان میں آفس میں بھی پانی ان کا ہاتھ تک ماتحت لے کر آتے تھے ، اور یہاں وہ ایسے ایسے کھانے خود بناتے ہیں کے پہلے لقمے کا بعد آپ کا منہ سے "ماں سدکے" نکل اۓ .

 ایک اور بہت پیارے دوست جو دیس میں 40 لوگوں پے کسی جنرل کی طرح حکم چلایا کرتے تھے وہ اب رات کا ایک بجے اپنے آفس سا ہم جیسے 3 لفنگوں کو نہیں نکال پاتے اور فدوی سے عمر ، تجربے اور ذہانت میں کہیں آگے ہونے کا باوجود "بھائ بھائ" کہہ کر مخاطب کرتے ہیں.

وقت گزرنے کا ساتھ یہ راز بھی کھلا کہ پی ایچ ڈی کرنے سا آپ کا دماغ خراب نہیں ہوتا ، اپ کا دماغ خراب ہوتا ہے جو آپ پی ایچ ڈی کرنے آتے ہَیں . کوئی عقل مند انسان اپنے ہوش و حواس میں ایسا فیصلہ نہیں کر سكتا،

دیوانگی فرض ہے پروانے کا


ایک خلش ابھی بھی قائم تھے کی پی ایچ ڈی کو "ڈاکٹر آف فلاسفی" کیوں کہا جاتا ہے ، ارے ہَم تو انجینئر لوگ ہیں ، ایک میرا دوست ڈاکٹر ، معافی چاہتا ہوں ، ڈینٹسٹ ہے ، فلاسفی کا ہم سا کیا لینا دینا . عرصہ گزرا تو اندازہ ہوا ، کا یہ وہ اقبال کا فلسفہ نہیں صاحب ، یہ زندگی کا فلسفہ ہے . آپ ایک ایسا مسئلہ ڈھونڈ رہے ہیں ، جس کا پوری بنی نوح انسان کو معلوم ہی نہیں ، اور اسے حَل کرنے والے ہیں ، ( اپنی قبر کھود کے ، لیٹ کر، مٹی بھی خود ڈال رہے ہیں ).

اور ہمارے ایک بہت محترم ساتھی تو اِس زندگی کا فلاسفی میں اتنا آگے نکل گئے کہ اقبال اور رومی کے كلام کی روح پکڑ بیٹھے . اور ہم ٹھیرے غالب اور وصی شاہ کا مارے ہوئے ہماری ان سے کبھی لمبی بحث نا چل سکی ، بس ان کی زبانی اقبال اور جلال کی دنیا کی سیر کرتے رہے . ویسے سننے میں یہ بھی آیا کے ہمارے وہ عزیز اَز جان بھائی بھی اہل فرنگ کو بہَت قریب سا دیکھ کر اور عمر کی آدھی بہاریں گزار کے رومی تلک پہنچے تھے.
مگر ہَم تو یہاں انگریز سے 100 سال کی غلامی کے بدلے کا عزم لیے آۓ تھے ورنہ ملک تو اور کئی تھے . اب دشواری یہ تھی کہ وہ ہمیں کسی ماہ پارہ میں مشغول دیکھتے تو کچھ ناراض بھی ہو جاتے کہ ہَم ان کھٹے انگوروں کی آس میں جو انگور کی بیٹی سۓ شخل فرما رہی ہوتی ، ان کے علم سے استافادہ حاصِل نہیں کر پا رہے۔ جب کے ہم اخلاقی اور مذہبی بندشوں کی وجہ سا وہاں کچھ کر بھی نہیں سکتے.

پِھر ایک دن ہَم نے اقبال کی زُبان میں ہی اُنہیں جواب دیا کہ

جو مزہ کبوتر پر جھپٹنے میں ہے اے پسر
وہ مزہ کبوتر کے لہو میں بھی نہیں.

تو حضرت مسکرا اٹھے اور سمجھ گئے کے ابھی جوانی کے ابال میں یہ اقبال کی انٹی بائیوٹک اور ڈوز ہو رہی ہے اور ہماری رومی کی ڈوزیج ہماری برداشت کا مطابق گھٹا دی .


Comments

Popular posts from this blog

Raigani by Sohaib Mugheera Siddiqui

Air travel for the First Time

میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 3)