میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 2)

صاحبو ، پی ایچ ڈی اور انجینیئرنگ میں میری ناقص راۓ کے مطابق صرف شدت کا فرق ہے . یہ ملحوظ خاطر رہے کے یہ شدت کا فرق کئ گنا زیادہ ہے . جب آپ دار العلمی میں داخل ہوتے ہیں ، تو دنیا فتح کرنے کا عظم لیے ہوتے ہیں ۔ کئی حضرات تو اپنی نوبیل پرائز کی تقریر بھی پہلے ہفتے میں لکھ بیٹھتے ہیں . پِھر آہستہ آہستہ پسند کی شادی کی مانند اِس میدان کی حقیقت کھلنے لگتی ہے تو بس یہی خواہش رہ جاتی ہے کہ "اس عذاب سے تو اب نکال مجھے" .

گذشتہ دنوں ایک شخسیت اپنی جوانی کا خون کر کے اسی راہ پہ آ نکلی جس پہ یہ فدوی بھی با وجہ قسمت اور ہٹدھرمی ، گامزن ہہ . دِل چاہا کہ موصوف سے کچھ ہمدردی کا اظہار کیا جائے اور کچھ دکھ بانٹے جائیں تو معلوم ہوا کے یہ موصوف اقبال اور بھگت سنگھ کے ملاپ سے وجود میں آنے والی کوئی شے ہیں . فقط 22 سال کی عمر میں خودی کی تلاش میں پی ایچ ڈی کو اپنی دلہن بنانے والے اِس عظیم انسان کا بارے میں اور جاننے کا اشتیاق پیدا ہوا . یہ بھی معلوم پڑا کا یہ حضرت اپنی نوجوانی کا چار سال ، انگلستان میں ہی بیتا چکے ہیں . انہی دنوں ایک شب ملک صاحب کا ہاں چائے کا دوران ہمارے برادار محترم مرزا صاحب نے اپنے مخصوص اندازِ بیاں میں ایک تھیوری پیش کی کے "ہمارا کہنا ہے کہ اِس لڑکے کو شہر کی ہوا نہیں لگی" . جب کا ہَم سب بلاموم اور ملک صاحب بلخصوص اِس تھیوری کے خلاف تھے کہ بھائی جوانی اہل فرنگ کی بانہوں میں گزارنے والے انسان کو تو ان زاویوں کا ہَم سا بہت بہتر معلوم ہونا چاھیے .

خیر کچھ عرصہ گزرا تو مرزا صاحب کی پیشکردہ تھیوری تو تقویت ملتی گئی اور پھر فدوی کے جنم دن کا موقع پر یہ تھیوری ایک ہائی امپکیٹ فیکٹر سے اپروو بھی ہو گئی جب لندن کی ایک رنگین شب میں اک ماہپارا نے ہمارے شیر کی طرف نگاہ التفات کی تو موصوف ایسے بدکے کا جیسے ان کے والد صاحب نے اُنہیں بھرا ہوا سگریٹ پیتے دیکھ لیا ہو .

اِس کا بعد ہم نے اپنی سنیارٹی کا فائدہ ان سا وہ ممنوع سوال پوچھا جو کسی سٹوڈینٹ سے نہیں پوچھا جاتا کے تمھارا GPA کیا ہے ، جواب بہت خوشی سے آیا کہ "4" جس سے ہمیں ہمارے باقی سب سوالوں کا جواب مل گیا .

اِس سے مجھے میرے عزیز اَز جان راجہ صاحب بھی بہت یاد آۓ . ویسے تو راجہ صاحب کا گوری چمڑی سا واسطہ لندن کی ہواؤں میں ہی پڑا ، وہ بھی جب وہ کسی اور کی حسین نگاہوں کا شکار ہو چکے تھے . مگر ہمارے پیارے راجہ صاحب بھی تعلیمی میدان میں ہمیشہ سے درجہ دوام پہ کبھی بھی فائز نا ہوئے ، یعنی عرف عام میں وہ بھی چوکے تھے . راجہ صاحب کی مزیدار بات یہ تھی کہ وہ آپ کا ہر مسئلے کا حَل فوراً نکل دیں گے ، بلکہ آپ کا ساتھ مل کر اسے حَل کریں گے . مگر ان کی اپنی پڑھائی میں جیسے ہی کچھ چھوٹا سا مسئلہ آیا ، راجہ صاحب کا رنگ ایسے فق ہوتا جیسے ان کی زندگی کا مقصد چھن گیا ہو . ہَم جو خوش قسمتی سے ، باوجود حکومت گرانے کی دھمکیوں کے ، ان کے اپنوں کی فہرست میں ابھی تک براجمان تھے ، ان کے ان بدلتے رنگوں کو بہت قریب سے دیکھ پاتے . اکثر اوقات تو ان کی زوجہ محترمہ ہمیں کال کر کے حکم دیتی کا کچھ کرو ورنہ میرے سر کا تاج رَو رَو کے مر جائے گا . غور طلب بات یہ ہے کہ اکثر وہ مسئلہ جس پہ راجہ صاحب اپنی پوری سلطنت تیاگ کر ، دِل چھوڑ بیٹھے ہوتے ، وہ ایک گراف بھی نہیں ، اس کا بیچ پڑی کسی ایک ایسی لائن کا ہوتا جو ہم جیسے خود ہی پینسل سے لگا دیا کرتے ہیں .ہی پینسل سے لگا دیا کرتے ہیں .

Comments

  1. Story theak ja rahi hay-----new characters ka wait kar raha---

    ReplyDelete

Post a Comment

Popular posts from this blog

Raigani by Sohaib Mugheera Siddiqui

Air travel for the First Time

میری پی ایچ ڈی کہانی (پارٹ 3)